حضرت خواجہ معروف کرخی
رحمتہ اللہ علیہ
آپ رحمتہ اللہ علیہ کا اسم گرامی اسدالدین المعروف تھا جبکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ معروف کرخی کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد ماجد کانام فیروز تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ والدین پارسی مذہب کے پیروکار تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت امام علی رضاؓ کے تربیت یافتہ تھے ۱۹ شوال ۱۲۸ ہجری بروزچہار شنبہ عصر کے وقت حضرت خواجہ داود طائی رحمتہ اللہ علیہ سے بغداد میں آپ نے خلافت حاصل کی ۔اوراس کے بعد ۱۹۷ ہجری میں بروز جمعہ مشہد میں امام موسیٰ علی رضا رضی اللہ تعالٰی عنہ سے خلافت حاصل کی۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں کہ میرے والدین نے مجھے ایک عیسائی معلم کے پاس بٹھادیا۔ اس معلم نے سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ تمہارے گھر میں کتنے افراد ہیں جس پر میں نے بتایا کہ میرے گھر تین افراد ہیں۔اس پر استاد نے کہا کہ عیسیٰ تین خداؤں میں تیسرا خدا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں عالم کفر میں بھی میری غیرت نے یہ گوارہ نہ کیا کہ ایک سے سوا دوسرے کو پکاروں۔ اس لئے میں نے انکار کردیا۔ اس پر معلم نے مجھے مارنا شروع کردیا وہ جتنی شدت سے مجھے مارتا میں اتنی ہی جرات سے انکار کرتا۔ آخر کار اس نے تنگ آکر میرے والدین سے کہا کہ اس کو قید کردو۔ میں تین روز تک قید رہا ہر روز ایک روٹی ملتی تھی مگر میں اس کو چھوتا تک نہیں تھا۔ جب مجھے قید سے نکالا گیا تو میں گھر سے بھاگ گیا۔ کیونکہ میں والدین کا اکیلا ہی لڑکا تھا اس لئے میری جدائی سے انہیں سخت صدمہ ہوا پیغام بھیجا کہ واپس لوٹ آؤ جس مذہب کو چاہتے ہو اختیار کرلو، ہم بھی تمہارے ساتھ اپنا دین تبدیل کرلیں گے۔ چنانچہ میں حضرت امام علی رضاؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے دست حق پر مسلمان ہوگیا۔پھر جب میں گھر پہنچا والدین بھی ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے تعلیم و تربیت حضرت امام علی رضاؓ سے مکمل کی۔ اس کے علاوہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے بھی بھرپور علم حاصل کیا۔ اس کے علاوہ علم طریقت حضرت حبیب راعی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کیا۔۱۹ شوال ۱۲۸ ہجری بروزچہار شنبہ عصر کے وقت حضرت خواجہ داود طائی سے بغداد میں آپ نے خلافت حاصل کی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اذان اس شان سے پڑھتے تھے کہ خوف سے رونگٹے اور داڑھی کے بال کھڑے ہوجاتے تھے اور ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ رحمتہ اللہ علیہ ابھی گر پڑیں گے۔باربار رات کو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی مسجد سے گریہ زاری کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے جو کچھ بھی ملا ہے وہ حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کی بدولت ملا ہے۔ حضرت عبدالوہاب رحمتہ اللہ علیہکا قول ہے کہ میں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ سے بڑا تارک الدنیا اس جہان میں کسی کو نہ دیکھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے تصرف کا یہ عالم ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار اقدس قضائے حاجات کے لئے تریاق مانا جاتا ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ ہروقت باوضو رہتے تھے۔ ایک دن آپ رحمتہ اللہ علیہ کا وضو ساقط ہوگیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فوراً تیمم کا اہتمام کرلیا۔ لوگوں نے عرض کی کہ حضرت دریائے دجلہ پاس ہی ہے تیمم کی کیا ضرورت ہے۔ اس پر حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر دجلہ تک پہنچتے پہنچتے موت آگئی تو میری موت ناپاکی کی حالت میں ہوگی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ دنیا سے متنفر اور بے زار تھے۔ ہر وقت یاد الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ نے کشف المجوب میں لکھا ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مناقب و فضائل کی کوئی حد نہیں ہے۔ علوم میں آپ رحمتہ اللہ علیہ قوم کے مقتدا اور سردار ہیں۔
ایک دفعہ آپ رحمتہ اللہ علیہ دریائے دجلہ کے کنارے کپڑے اور قرآن شریف رکھ کر غسل کررہے تھے کہ ایک ضعیفہ آئی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے سامان کو اٹھا کر لے گئی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کا پیچھا کیا اور ایک جگہ روک کر کہا کہ میں تمہارا بھائی معروف کرخی ہوں کیا تمہارا کوئی لڑکا بھائی یا شوہر ہے جو قرآن شریف پڑھے۔ اس نے کہا نہیں۔ اس پر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا قرآن شریف مجھے دےدو اور کپڑے لے لو میں نے دنیا و آخرت میں ہر جگہ تمہیں معاف کیا۔ یہ سن کر ضعیفہ کو اتنی شرم آئی کہ اس نے توبہ کی پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دعا سے وہ ولیہ اور متقیہ ہوگئی۔
حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے عید کے دن آپ رحمتہ اللہ علیہ کو کھجوریں چنتے ہوئے دیکھا تو میں نے پوچھا حضور کیا کررہےہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے اس لڑکے کو روتے ہوئے دیکھا تو اس سے پوچھاکہ تم کیوں رورہے ہو۔ اس بچے نے جواب دیا کہ آج عید کا دن ہے اور میں یتیم ہوں سب لوگ نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لئے میں یہ کھجوریں چن رہا ہوں۔ ان کو بیچ کر میں اس لڑکے کو اخروٹ لے دوں تاکہ یہ کھیلے اور کھیل میں مشغول ہونے کی وجہ سے اپنا درد بھول جائے۔ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کی کہ حضرت میں اس کام کو انجام دےدیتا ہوں آپ رحمتہ اللہ علیہ بے فکر رہیں۔ چنانچہ میں اس بچے کو لیکر کپڑے کی دکان پر گیا۔ اس کو نئے کپڑے خرید کر پہنادئیے۔ اس کے بعد حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کام کے بعد میرے دل میں ایک نور پیدا ہوا اور میری حالت کچھ اور ہی ہوگئی۔
آپ اس دار فانی سے ۲۲۰ہجری کو رخصت ہوئے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے وقت ایک عجیب واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ جب آپ رحمتہ اللہ علیہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو تمام لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ہم آپ رحمتہ اللہ علیہ کا جنازہ اٹھائیں گے جس میں یہودی پارسی اور مسلمان سب شامل تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے خادم نے کہا کہ مجھے حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ نے وصیت کی تھی کہ جو قوم میرا جنازہ زمین سے اٹھائے گی وہی میری تجہیزوتکفین کرے گی۔ چنانچہ سب سے پہلے یہودیوں نے کوشش کی پھر پارسیوں نے کوشش کی لیکن کوئی بھی جنازے کو اٹھا نہ سکا۔ آخرمیں مسلمانوں نے جنازے کو اٹھایا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو سپرد خاک کردیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار اقدس بغداد شریف میں ہے۔